گیان واپی مسجدتہہ خانے میں کبھی کوئی پوجا نہیں ہوئی۔ملک معتصم خاں

جماعت اسلامی ہند کی جانب سے عبادت گاہوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا حکومت سے مطالبہ

Feb 3, 2024 - 23:53
گیان واپی مسجدتہہ خانے میں کبھی کوئی پوجا نہیں ہوئی۔ملک معتصم خاں

نئی دہلی: جماعت اسلامی ہند کی جانب سے مرکز،نئی دہلی میں منعقدہ پریس کانفرنس میں نائب امیر جماعت اسلامی ہند ملک معتصم خاں نے گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں مورتیاں رکھ کر پوجا کی سہولت فراہم کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ’’ وارانسی ڈسٹرکٹ کورٹ نے اس کام کے لئے انتظامیہ کو سات دنوں کا وقت دیا تھا، اسے دیکھ کرایسا محسوس ہوتا ہے کہ وارانسی ضلعی انتظامیہ بہت جلد بازی میں تھی اور چاہتی تھی کہ ’ انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی ‘ کی جانب سے اس آئین مخالف، حیران کن فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت سے راحت حاصل کرنے سے پہلے ہی مدعی کو پوجا پاٹ شروع کرنے کی راہ ہموار کردے ۔ کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ دلیل دی کہ’’ 1993 تک گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی جارہی تھی مگر اس وقت کی ریاستی حکومت کے حکم پراسے روک دیا گیا ‘‘۔ جماعت کا خیال ہے کہ کورٹ کی یہ دلیل قطعی غلط ہے اور ناواقفیت کی بنیاد پر دی گئی ہے ۔ سچائی تو یہ ہے کہ تہہ خانے میں کبھی کوئی پوجا ہوئی ہی نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی ثبوت ہے۔ جماعت ا ن جیسے واقعات کی پُر زورمذمت کرتی ہے، کیونکہ اس سے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جو متھرا کی شاہی عیدگاہ، دہلی کی سنہری مسجد اور ملک کی دیگر متعدد مساجد اور وقف املاک پر غیر منطقی و بے بنیاد دعوے کررہے ہیں۔ جماعت ’ ڈی ڈی اے ‘ کی مہرولی میں 600 سالہ پرانی مسجد ( اخونجی مسجد) کو منہدم کرنے کی بھی مذمت کرتی ہے۔ اس مسجد میں ایک مدرسہ (بحر العلوم ) کے علاوہ قابل احترام شخصیات کی قبریں تھیں۔ ان سب کو مکمل طور پر زمین بوس کردیا گیا اور انہدامی کاروائیوں کو عوام کی نظروں سے چھپانے کے لئے بڑی ہوشیاری کے ساتھ تمام ملبے وہاں سے ہٹا دیئے گئے۔ انہدامی کاروائی کرنے والے اہلکاروں نے مدرسہ میں زیر تعلیم طلبا کے سامانوں کی بھی توڑ پھوڑ کی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’ جماعت ’’ پلیسیز آف ورشپ ایکٹ 1991‘‘ کی پابندی کرنے کی پرزور حمایت کرتی ہے۔ یہ ایکٹ عوامی عبادت گاہوں کے مذہبی کردار کو 15 اگست 1947 کی حیثیت پر برقرار رکھنے کی ضمانت دیتا ہے۔ حکومت ہند کو اس ایکٹ کی پُرزور حمایت کرنی چاہئے اور اعلان کرنا چاہئے کہ وہ اس پر مکمل طور پرعمل کرنے کی پابند ہے۔ ہم ملک کے عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ تاریخ میں الٹ پھیر کرنے کی کوششوں کو روکیں اور جذباتی مسائل کو اچھال کر ووٹ بینک کی سیاست کرنے والوں کو شکست دیں‘‘۔

 جماعت کے نائب امیر پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے ’عبوری مرکزی بجٹ‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’ جماعت اسلامی ہند، حکومت کے عبوری مرکزی بجٹ برائے 2024-25 میں سماجی شعبوں کو نظر انداز کئے جانے پر تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ ’ نیشنل ہیلتھ پالیسی 2017 ‘ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان ہر سال صحت کے شعبے میں اپنے بجٹ کو بڑھائے گا تاکہ 2025 تک صحت پر جی ڈی پی کا 2.5 فیصد خرچ کرنے کا ہدف پورا کیا جاسکے۔ اب جبکہ مہنگائی کافی بڑھ چکی ہے، اس کے باوجود محکمہ صحت اور خاندانی بہبود کے لئے 2023-24 بجٹ تخمینوں کے مقابلے مالی سال2024-25 کا بجٹ کم ہے ۔ کم اس طرح ہے کہ مالی سال 2023-24 میں 86175 کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے، جس کے مقابلے 2024-2025 کے لئے 87656 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ یہ رقم بظاہر زیادہ لگتی ہے لیکن مہنگائی کے اوسط پر ایک نظر ڈالیں اورپانچ فیصد مہنگائی مان لیں تو محکمہ صحت اور خاندانی بہبود کا بجٹ 3.17 فیصد کم ہوتا ہے۔ اسی طرح ’’ پردھان منتری سواستھ سرکشا یوجنا ‘‘ جس کا مقصد پسماندہ علاقوں میں طبی ، تعلیمی اور تحقیقی نگہداشت کی صلاحیتوں کی تعمیرو ترقی ہے۔ اس کے بجٹ کو سابقہ بجٹ کے مقابلے 33 فیصد کم کرکے صرف 2400 کروڑ روپے ہی مختص کئے گئے ہیں۔ اسی طرح تعلیم کے شعبے کے لئے مجموعی جی ڈی پی کا محض 3.29 فیصد ہی رکھا گیا ہے حالانکہ NEP 2020 نے جی ڈی پی کا 6 فیصد مختص کرنے کی سفارش کی ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’جماعت کو مرکزی اقلیتی وزارت کے بجٹ تخمینہ سے بھی مایوسی ہوئی جس میں کچھ اسکیموں اور پروگراموں میں معمولی اضافے کے علاوہ مزید کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ۔ اقلیتوں کی تعلیم کو مکمل طور پر بااختیار بنانے کے بجٹ میں بھی کمی کردی گئی ہے ۔ یہ کمی مبینہ طور پر پری میٹرک اور مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ ( ایم اے این ایف ) جیسی اسکالرشپ اسکیموں کو منسوخ کرنے کی وجہ سے تقریبا 125 کروڑ روپے کم ہوئے ہیں۔ البتہ مدرسوں اوراقلیتوں کے لئے تعلیمی اسکیموں کو گزشتہ بجٹ میں 10 کروڑ روپے سے کم کرکے 2 کروڑ روپے کرنے کے بعد پھر سے نظر ثانی کرکے اس بجٹ کو 2 کروڑ سے بڑھا کر 5 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ جماعت کا مطالبہ ہے کہ صحت کے لئے مجموعی جی ڈی پی کا کم سے کم 3 فیصد اور تعلیم کے لئے 6 فیصد مختص ہونا چاہئے۔ اس عبوری بجٹ میں ٹیکس کے ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے عام آدمی کو کوئی خاص راحت نہیں ملی ‘‘۔ پروفیسر سلیم نے ’براڈ کاسٹ بل‘ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ براڈ کاسٹنگ سروسز ( ریگولیشن) بل 2023 کے مسودے کے بارے میں جماعت اسلامی ہند کو تشویش لاحق ہے ، کیونکہ اس سے سینسر شپ اور پریس کی آزادی پر پابندیوں کے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس بل کا مقصد ملک میں براڈ کاسنٹنگ سیکٹر کے لئے ایک جامع قانونی فریم ورک تیار کرنا ہے ، لیکن یہ خدشات درست ہیں کہ اس کے نتیجے میں اوور دی ٹاپ ( او ٹی ٹی ) پلیٹ فارمز کی سنسرشپ، ڈیجیٹل میڈیا کی آزادی میں کمی اور ریگولیشن میں ابہام کا سبب بن سکتا ہے۔ اس بل میں پروگرام کوڈ اور ایڈورٹائزمنٹ کوڈ کی خلاف ورزی پر سرکار کو ایک ’ براڈ کاسٹ ایڈوائزی کونسل‘ کے قیام کی تجویز ہے۔ یہ پچھلے دروازے سے سنسر بورڈ تشکیل دینے کی راہ کھولتا ہے جس کے ذریعہ براڈ کاسٹنگ کی آزادی میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ اس بل کو اتنا مبہم بنا دیا گیا ہے کہ تخلیق کاروں کو گھیرے میں لینا آسان ہوجائے گا ۔ جماعت کا مطالبہ ہے کہ وہ مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات کے تعلق سے مسودہ بل کو موخر کرے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کرے‘‘۔ نیشنل میڈیا سکریٹری کے کے سہیل نے ’غزہ میں نسل کشی اورعالمی عدالت انصاف‘ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اسرائیل کو اقوام متحدہ کے اعلیٰ ترین عدالتی ادارے میں گھسیٹنے کے جرأت مندانہ اور بروقت اقدام پر جماعت اسلامی ہند، جنوبی افریقہ کی تعریف درج کرنا چاہتی ہے۔ جنوبی افریقہ نے استعماریت، غاصبانہ قبضے اور نسل پرستی کے خلاف لڑنے کی اپنی شاندار روایت کو مد نظر رکھتے ہوئے فلسطین کی طرف سے یہ قدم اٹھایا اور ’ آئی سی جے‘ سے التجا کی کہ ’اسرائیل انسانی قانون کی خلاف ورزیوں کا ذمہ دار ہے اورغزہ میں نسل کشی کا ارتکاب کررہا ہے‘۔ جنوبی افریقہ اپنے دعوے میں صحیح ثابت ہوا ، کیونکہ ’آئی سی جے‘ نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ’’ آرٹیکل III میں نشاندہی کی گئی ہدایتوں کے مطابق غزہ کونسل کشی اور متعلقہ ممنوعہ کاروائیوں سے محفوظ رکھا جانا چاہئے اور جنوبی افریقہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کنونشن کے تحت اسرائیل سے ان ہدایتوں کا احترام کرنے اور ان کی تعمیل کرنے کا مطالبہ کرے‘‘۔ جماعت اسلامی ہند ’ آئی سی جے ‘ کے ریمارکس کا خیر مقدم کرتی ہے ، خاص طور پر جن کا ذکر پیرا 54، 78 اور 79 میں کیا گیا ہے۔ حالانکہ ہمیں مایوسی بھی ہوئی کہ ’ آئی سی جے ‘ نے واضح طور پر غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کیا۔ تاہم اس فیصلے کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ نسل کشی کو روکنے کے مقصد کو پورا کرتا ہے اور غزہ میں طبی مراکز اور گنجان آبادی والے علاقوں پراسرائیل کے فضائی حملوں کی مذمت اور حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’ آئی سی جے‘ میں 2 کے مقابلے 15 کی اکثریت نے جنوبی افریقہ کے اقدامات کی حمایت کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسرائیل پر جنگ سے باز رہنے اور نسل کشی سے دور رہنے کے لئے دباؤ بنانے پر متفق ہیں۔ جماعت اسلامی ہند حکومت ہند، مسلم ممالک سمیت بین الاقوامی برادری سے اپیل کرتی ہے کہ وہ غزہ میں فوری جنگ بندی کے لئے اسرائیل پر دباؤ ڈالیں۔ بین الاقوامی عدالت میں اسرائیل کی فرد جرم کو غزہ میں امن کے حصول اور دشمنی کے خاتمے تک جاری رہنا چاہئے‘‘۔ کانفرنس کی نظامت سید خلیق احمد نے کی۔

akhbarurdu.com akhbarurdu.com