کیا ایران میں حجاب نہ پہننے پر پولیس نے خاتون کو گولی مار دی؟

ایران میں حجاب کے حوالے سے سخت قوانین ہیں اب ایک بار پھر اس قانون کی خلاف ورزی پر خاتون کو گولی مارنے کا الزام لگا ہے۔

Aug 16, 2024 - 08:15
کیا ایران میں حجاب نہ پہننے پر پولیس نے خاتون کو گولی مار دی؟

ایران میں حجاب کے قانون کی خلاف ورزی پر ایک خاتون کو پولیس نے گولی مارنے کا الزام لگا ہے ، یہ واقعہ گزشتہ ماہ پیش آیا۔ ایک 31 سالہ خاتون اپنی کار میں بھاگنے کی کوشش کر رہی تھی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ پولیس اس کی کار کو ضبط کرنا چاہتی ہے۔ کارکنان کا کہنا ہے کہ پولیس کو اس کی گاڑی کو ضبط کرنے کا حکم دیا گیا تھا کیونکہ اس نے پہلے عوامی مقامات پر گاڑی چلاتے ہوئے اپنے بال دکھا کر ایران کے حجاب کے قانون کی خلاف ورزی کی تھی۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق خاتون کی شناخت آرزو بدری کے نام سے ہوئی ہے۔ اس کے دو بچے ہیں۔ خاتون کی ریڑھ کی ہڈی میں گولی لگی ہے اور وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہے۔ اس وقت وہ پولیس اسپتال میں زیر علاج ہے۔الزام ہے کہ  یہ خاتون حجاب یا اسکارف پہننے پر ایران کے نئے کریک ڈاؤن کا تازہ ترین شکار ہے۔ اس سے پہلے دو سال قبل اس وقت ایک خاتون کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا، جس کے بعد ملک بھر میں خواتین کے حقوق اور ملک کی مذہبی حکومت  کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔

ایران میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے ایک گروپ نے ان لوگوں سے بات کی جن کو فائرنگ کا علم تھا۔ انہوں نے کہا کہ اہلکاروں نے پہلے بدری کی گاڑی کے ٹائروں پر گولی چلائی۔ افسران نے گاڑی پر گولیاں چلائیں جو ان کی ریڑھ کی ہڈی میں لگی اور اسے نقصان پہنچا۔

اس معاملے پر سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ بدری کو 22 جولائی کی رات 11 بجے ایران کے شمالی صوبے مازندران میں ایک ساحلی سڑک پر اس وقت گولی مار کر زخمی کر دیا گیا جب وہ اپنی بہن کے ساتھ ایک دوست کے گھر سے واپس آ رہی تھیں۔ ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا  کی طرف سے شائع کردہ ایک مختصر اکاؤنٹ میں پولیس کرنل احمد امینی کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ گشتی اہلکاروں نے ایک گاڑی کو رکنے کا حکم دیا تھا، لیکن گاڑی نہیں رکی۔ انہوں نے حجاب کی خلاف ورزی یا ضبطی کے نوٹس کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ پولیس نے بدری کی گاڑی کو کیوں روکا یہ ابھی تک واضح نہیں ہے، حالانکہ کارکن اس کی وجہ حجاب کی خلاف ورزی  ہی بتا رہے ہیں۔

Qaumi Awaz Qaumi Awaz play a significant role in informing and engaging readers, reflecting the perspectives and interests of their target audience. They are essential sources of information for individuals who prefer to access news and analysis in the Urdu language, which is spoken by a significant portion of the Indian population.