پاکستانی خواتین اور ان کے ننھے منے محافظ

پاکستان میں اکثر خواتین اپنے کم عمر بیٹے یا بھائی کو ساتھ لے کر گھر سے باہر نکلتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرہ کس حد تک غیر محفوظ ہو چکا ہے اور کسی مرد کا ساتھ ہونا کتنا ضروری ہے۔

Sep 21, 2023 - 19:06
پاکستانی خواتین اور ان کے ننھے منے محافظ
پاکستانی خواتین اور ان کے ننھے منے محافظ

پاکستان میں خواتین کی نقل و حرکت بہت محدود ہے اور اس کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ سب سے بڑی وجہ حفاظتی خدشات کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ اکثر خواتین اسی وجہ سے اپنے کم عمر بیٹے یا بھائی کو ساتھ لے کر گھر سے نکلتی ہیں حالانکہ بچے کی حفاظت کرنا بالغ انسان کا کام ہوتا ہے۔ تو یہ نوعمر لڑکے بالغ خواتین کے ساتھ گھر سے حفاظتی گارڈ بن کر نکلتے ہیں۔

دوسرا یہ کہ عورت کے باہر نکلنے کو سماجی اصولوں کے خلاف بھی سمجھا جاتا ہے۔ اور حفاظتی خدشات سے زیادہ اس بات کا خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں وہ کسی غیر متعلقہ مرد کے ساتھ تعلق استوار کرکےگھر اور خاندان کی بدنامی کا باعث نہ بن جائے۔ اس کے نتیجے میں بہت سی خواتین کو عوامی مقامات پر آزادانہ طور پر آنے سے مکمل طور پر روک دیا جاتا ہے۔ اس سے ان کی ذات پر جو منفی اثر پڑتا ہے سو پڑتا ہے بلکہ ملکی معیشت اور عالمی امیج پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ان سب چیزوں سے لڑکر جب وہ عورت باہر کی دنیا میں قدم رکھتی ہے تو اسے مختلف خطرات کا خدشہ لگا رہتا ہے۔ مردوں نے خود سے ہی فرض کیا ہوا ہے کہ عورت کی جگہ صرف گھر کی چاردیواری میں ہے اور باہر کی دنیا میں پورا حق مرد کا ہے۔ اس کو لگتا ہے کہ سماج کا سب سے بڑا حق سچ ہی یہی ہے کہ وہ کسی بھی راہ چلتی عورت کو ہراساں کرنے کی اجازت پیدا ہوتے ہی حاصل کرچکا ہے۔ یہی ہراساں کیے جانے کا خوف ہے جو خواتین کی نقل و حرکت اور پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کو محدود کرتا ہے۔

فحش تبصرے، سیٹی بجانا اور ہاتھ لگانا پاکستانی خواتین کی روزمرہ زندگی کا حصہ ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے سی سی ٹی وی فوٹیجز سوشل میڈیا پر گردش میں تھی جس میں صاف دیکھا جا سکتا تھا کہ ایک عورت ابایا میں تھی اور ابایا میں ہونے کے باوجود اس عورت کو کس طرح دن دھاڑے جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ تو بات یہ ہے کہ مردوں کی اس دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عورت کس طرح کے لباس میں ہے۔ مجرموں کو تو اس بات سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وقت دن کا ہے یا رات کا۔ تو ثابت یہ ہوا کہ جب کبھی اسے موقع ملتا ہے وہ اس کا پورا فائدہ اٹھاتا ہے۔

سندھ حکومت کی طرف سے خواتین کے لی علیحدہ بسیں شروع کی گئی ہیں، جو لازمی خواتین کو گھر سے باہر نکلنے کا حوصلہ دیں گی اور اپنے اوپر ان کے اعتماد کو بھی بحال کروانے میں مدد دیں گی۔ یہی چیز اس بات کا امکان بھی بڑھائے گی کہ لیبر فورس میں خواتین کی شرح میں مناسب اضافہ ہو۔ وہ اس بات کی بھی اہل ہوں گی کہ وہ اپنی مرضی کی ملازمت کرسکیں جو پہلے سیف پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے ممکن نہیں تھا۔

یہاں اس بات کو یقینی بنانا بھی لازمی ہے کہ ایسے پروجیکٹ چلتے رہیں، جس کے لیے ضروری ہے کہ وقت کے ساتھ بسوں اور ان کے روٹ میں مزید اضافہ کیا جائے۔ اس کے لیے اس سوال سے بھی بالاتر ہونا پڑے گا کہ حکومت کس کی ہے اور کس کی نہیں ہے۔

یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ یہ ملک عورتوں کے لیے ایک غیر محفوظ ملک ہے۔ شاید ہم اس بات کو قبول بھی کر چکے ہیں اور اس صورتحال کو بدلنے کا ہمارا کوئی ارادہ بھی نہیں۔ خواتین کے لیے بس سروس شروع کرنا، رکشہ سروس یا ٹیکسی سروس شروع کرنا بیشک ایک اچھا اقدام ہے لیکن ہمیں معاشرے کی سوچ کو بدلنے کے لیے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ساتھ ہی یہ بھی سوچنا چاہیے کہ خواتین کب تک گھر سے تنہا نکلنے میں ڈر و خوف محسوس کریں گی اور کب تک خواتین کوباہر نکلنے کے لیے ایک ننھے سے محافظ کی ضرورت پڑتی رہے گی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Qaumi Awaz Qaumi Awaz play a significant role in informing and engaging readers, reflecting the perspectives and interests of their target audience. They are essential sources of information for individuals who prefer to access news and analysis in the Urdu language, which is spoken by a significant portion of the Indian population.