اترپردیش کے جھانسی میڈیکل کالج کے این آئی سی یو میں آگ لگنے سے 10 معصوم بچوں کی موت سے پورا ملک صدمے میں ہے۔ 16 شدیدزخمی بچے اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جاں بحق ہونے والے بچوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔ ان سب کے درمیان یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ 10 بچوں کی موت کا ذمہ دار آخر کون ہے؟ این آئی سی یو میں آگ کیسے لگی؟ آگ لگی تھی تو بروقت پتہ کیوں نہیں چل سکا؟ بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات تلاش کیے جا رہے ہیں۔
آگ سے جڑے سنگین سوالات کے درمیان جو خبریں سامنے آرہی ہیں وہ سب کو حیران کرنے والی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس بڑے واقعے کی ذمہ دار اسپتال انتظامیہ کی غفلت ہے؟ آج تک کی ویب سائٹ پر شائع رپورٹ کے مطابق، “جھانسی میڈیکل کالج کے این آئی سی یو میں آگ لگنے کے بعد فائر الارم نہیں بجا۔ وارڈ میں رکھے سلنڈر آگ بجھانے کے لیے کسی کام کے نہیں تھے۔ سلنڈر پر بھرنے کی تاریخ 2019 ہے اور ختم ہونے کی تاریخ 2020 ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آگ بجھانے والے آلات کو ختم ہوئے 4 سال ہو چکے تھے۔ یہ سلنڈر یہاں صرف دکھانے کے لیے رکھے گئے تھے۔
یوپی کے نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاتھ کے مطابق اس سال فروری کے مہینے میں اسپتال میں فائر سیفٹی آڈٹ کرایا گیا تھا۔ جون میں موک ڈرل بھی کی گئی تھی ۔ سوال یہ ہے کہ کیا فائر سیفٹی آڈٹ کے دوران ایکسپائر آگ بجھانے والے سلنڈر نہیں دیکھے گئے؟ کیا آڈٹ کے دوران فائر الارم میں کوئی خرابی نہیں پائی گئی؟ ظاہر ہے کہ اگر وقت پر ان چیزوں کو سدھار لیا جاتا تو شاید آج جھانسی میڈیکل کالج میں اتنا بڑا واقعہ نہ ہوتا۔
رپورٹ کے مطابق ہمیر پور کے رہنے والے بھگوان داس بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جن کے بیٹے کو جھانسی کے رانی لکشمی بائی میڈیکل کالج میں داخل کرایا گیا تھا۔ آگ کے وقت بھگوان داس وارڈ میں موجود تھے۔ ابتدائی تفتیش میں آگ لگنے کی وجہ شارٹ سرکٹ لگ سکتی ہے لیکن بھگوان داس نے بتایا کہ نرس نے بچوں کے وارڈ میں آکسیجن سلنڈر کے پائپ کو فٹ کرنے کے لیے ماچس کی اسٹک جلائی۔ جیسے ہی اس کا ماچس روشن ہوا پورے وارڈ میں آگ لگ گئی۔ اس کے بعد بھگوان داس نے 3 سے 4 بچوں کو کپڑے میں لپیٹ کر آگ سے بچایا۔آگ لگنے کے بعد جو بھی لاپرواہی سے متعلق معاملات سامنے آرہے ہیں، اس کی سرکاری طور پر تصدیق ہونا باقی ہے۔ پورے معاملے کی جانچ کی جا رہی ہے۔