سفیروں نے بتایا کہ اس اہم میٹنگ میں یوروپی یونین کی نمائندگی وسط مشرقی امن عمل کے لیے مقرر خصوصی نمائندہ سوینس کوپنس کر رہے ہیں جبکہ اسرائیل کے سب سے بڑے حامی امریکہ نے فلسطینی معاملوں کے لیے محکمہ خارجہ کے خصوصی نمائندہ ہیڈی امر کو بھیجا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں جب سے اسرائیل نے غزہ پر حملے شروع کیے ہیں، تب سے غزہ جنگ نے ‘دو ریاستی حل’ کی چرچا کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔ اس کے تحت اسرائیل اور فلسطین دونوں ریاست ایک ساتھ امن سے رہ سکتے ہیں۔ حالانکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ہدف پہلے سے زیادہ مشکل لگتا ہے کیونکہ وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت فلسطین کو ریاست کا درجہ دینے کے سخت خلاف ہے۔
اسرائیل کے فلسطین، لبنان اور ایران کے خلاف جنگ سے پورے خطہ میں سراسیمگی کا ماحول ہے۔ اب تک جنگ بندی کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں اور لڑائی دن بہ دن مزید شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اس درمیان سعودی عرب نے اب ایک نئی کوشش کی ہے۔ اس نے بدھ کو فلسطینی ریاست کے قیام اور اسرائیل پر دباؤ بنانے کے لیے ریاض میں ایک نئے ‘عالمی عظیم اتحاد’ کی پہلی میٹنگ کی میزبانی کی۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ پرنس فیصل بن فرحان نے کہا کہ ریاض میں ہو رہی دو روزہ میٹنگ میں تقریباً 90 ملک اور عالمی تنظیمیں شرکت کر رہی ہیں۔
اس موقع پر پرنس فیصل بن فرحان نے غزہ میں انسانی حالت کو تباہ کن بتاتے ہوئے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی لوگوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرنے کے مقصد سے وہاں قتل عام کیا جا رہا ہے، جسے سعودی عرب بالکل برداشت نہیں کرے گا۔
ریاض کی میٹنگ میں شرکت کرنے کے لیے پہنچے سفیروں نے کہا کہ میٹنگ میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی کی انسانی پہنچ اور دو ریاستی حل کو آگے بڑھانے کے طریقوں پر توجہ مرکوز کرنے کی امید ہے۔