تحریکِ آزادی میں اُردو شاعری کا حصّہ

تحریکِ آزادی تقریباایک صدی پر محیط ایک طویل جدّو جہد کا سلسلہ تھا جس کے نتیجے میں ہمارے ملک کو آزادی کی نعمت نصیب ہو ئی۔ ۱۸۵۷ء؁ میں انگریزوں کی غلامی سے چھٹکارا پانے کی ایک کو شش کی گئی۔یہ ایک بغاوت تھی جو نوابوں اور حکومت انگلستان سے نا خوش عناصر کی ایما پر وجود میں آ ئی تھی۔

Sep 21, 2023 - 18:51
تحریکِ آزادی میں اُردو شاعری کا حصّہ

تحریکِ آزادی تقریباایک صدی پر محیط ایک طویل جدّو جہد کا سلسلہ تھا جس کے نتیجے میں ہمارے ملک کو آزادی کی نعمت نصیب ہو ئی۔ ۱۸۵۷ء؁ میں انگریزوں کی غلامی سے چھٹکارا پانے کی ایک کو شش کی گئی۔یہ ایک بغاوت تھی جو نوابوں اور حکومت انگلستان سے نا خوش عناصر کی ایما پر وجود میں آ ئی تھی۔
واقعہ یہ ہے کہ ۱۸۵۷ء؁ کا غدر تحریکِ آزادی کا دیباچہ تھاکہ اس کے بعد جلد ہی وہ واقعات پیش آ ئے جنھوں نے سوراج کے لئے سازگار ما حول پید ا کر نا شروع کردیا۔ غدر کی ناکامی نے عوام کی سوچ کے دھارے بدل دئے۔ہمارے قومی رہنماؤں نے غدر کے دوران ابھرنے والی آزادی کی تحریک کو جو خواص تک محدود تھی عوام الناس سے رو شناس کر ادیا۔ اس تحریک کا عوام کے اندر راسخ ہو نا تھا کہ آ زادی پورے ملک کی ضرورت بن گئی۔اس لحاظ سے غدر نقشِ اوّل تھا اور اس کے بعد ملک بھر میں بر پا ہو نے والا جذباتی اور فکری انقلاب نقشِ ثانی، جو اپنے نقشِ اوّل سے بہتر اور کا رگر ثابت ہوا ،چنانچہ ملک آ زاد ہو گیا۔
کو ئی بھی تحریک خواہ وہ سیاسی،سماجی یا ادبی ہو اس کے پروان چڑھا نے میں جذبات اور شعور ہمیشہ ایندھن کا کام دیتے آ ئے ہیں۔ان تحریکات کے قائدین عوام کو فکری سطح پر بیدار کر کے ان کی رہنمائی کرتے ہیں فکر و شعور کی ان ہی چنگاریوں کو جذباتی بر انگیختگی کے ذریعے شعلہ بنانے کا کام قوم کے فنکاروں او ر خصوصاً شاعروں نے کیا۔
تحریک آ زادی کے ضمن میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ ایک انقلاب ضرور تھا مگر خونین انقلاب نہ تھا۔ اس کی بنیاد اہنسا پر تھی عوامی بیداری کو اس میں مر کزی حیثیت حاصل تھی۔اس بات سے ملک کی خاطرمر مٹنے والوں کی قربانیوں کا درجہ گھٹا نا مقصود نہیںبلکہ حقیقت یہ ہے کہ آزادیِ وطن کے لئے خون بہانے والوں نے اپنی بساط کے مطابق سوئے لو گوں کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ ا۔ خصوصاً ۱۹۱۹ء؁میں جلیاں والا باغ کا سانحہ تحریکِ آ زادی میں عوامی بیداری کا سب سے بڑا محرّک قرار پایا۔آج ان شہدائے آ زادی کے نام اورقربانیاں تاریخ کے صفحات پر جگمگا رہے ہیں ،لیکن کیا آ پ اس مجاہدآ زادی سے بھی واقف ہیں جس نے عوامی بیداری کا عمل بڑے پیمانے پر انجام دیا ؟ وہ مجاہدِ آ زادی ہے، اردو شاعری۔اسی کے پیشِ نظر مشہور شاعر عمیق حنفی نے لکھا تھا:
’’ اردو ہماری گنگا جمنی تہذیب کی زبان ،اردو ہندو مسلم کلچر کا مشترکہ سرمایہ ،اردو جس نے جدّوجہدِ آزادی کو انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیااور سارے جہاں سے اچّھا ہندوستاں ہمارا جیسا ترانہ دیا ،جس میں جوشؔ نے کمپنی سرکار کے فرزندوں کو بری طرح پھٹکارا…بے شک ہماری زبان کو وہ تامر پتر ملنا چا ہئے تھا جو آ زادی کی سلور جوبلی پر مجاہدین کو دیا گیا۔ تحریکِ آزادی میں اردو شاعری کی خدمات کا جائزہ لیا جا ئے تو پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف اردو شاعروں نے اس تحریک کو اپنے خونِ جگر سے سینچا بلکہ وقت پڑا تواپنی گردنیں بھی کٹائیں،مشقِ سخن کے ساتھ چکّی کی مشقّت بھی جھیلی اور اس کی خا طر جلا وطنی کا دکھ بھی بر داشت کیا۔‘‘
قلعۂ معلی کے گہوارے میں پر وان چڑھتی ہو ئی اس زبان کو نوازنے والے اعلیٰ درجہ کے شاعر اور آ خری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے لہو سے ہی تحریکِ آ زادی کی آ بیا ری کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔حتیٰ کہ اس کی خاک بھی اس ملک کی خا طر ملک بدر ہو ئی:
کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
آزادی کے متعلق اردو شعراء کا فکری و جذباتی بہاؤ خطِ مستقیم کا سفر نہیں ہے بلکہ یہ سفر نشیب و فراز کے علاوہ ارتقائی مراحل سے بھی دو چار ہوا۔ ابتدا میں ہمیں اردو شاعری میں آ زادی کا مو ضوع حکومتِ انگلستان کے تئیں نا خوشگواری، بے چینی اور بہ الفاظِ دیگرمغلیہ حکومت کے خاتمے پر حزن و ملال کے اظہار کی صورت میں ملتا ہے۔ انگریزوں کے لئے مسلمانوں کے دل میں کیا جذبات تھے اس پر غور کرتے وقت صلیبی جنگوں کے پسِ منظر اور ترکی کی خلافت کے خاتمے میں انگریزوں کے کر دار کو پیشِ نظر رکھا جا ئے تو انگریزوں کا مسلمانوں کے ہاتھ سے حکومت چھین لینا ایک زبردست قومی سانحہ تھا جس کی تڑپ، احساسِ محرومی اور سنگینی کو شاید ہی ہندوستان کی دوسری قومیں محسوس کر پا ئیں۔اسی لئے مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف غم و غصّہ ،نفرت اور انتقام کے ملے جلے جذبات نے تحریکِ آزادی کو ایک مختلف قسم کا جوش فراہم کیا۔
سلطنتِ مغلیہ کا چھن جانا ایک تہذیب کا زوال تھا۔ اس پر مرزا غالب ؔ کے اشعار میں بھی دکھ کا اظہار ملتا ہے :
ہوئی جن سے توقّع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم نکلے
وہ بادۂ شبانہ کی سر مستیاں کہاں
اٹھئے بس اب کہ لذّتِ خوابِ سحر گئی
مرزا غالب ؔ نے غدر کی تباہ کاریاں ان الفاظ میں بیان کی ہیں:
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
شہر دہلی کا ذرّہ ذرّۂ خاک
تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا
غالب ؔکے بعد حالی ؔ،شبلی اورمحمّد حسین آ زاد کے ہاں نیا شعور اور نئی سمت کی نشاندہی کی گئی۔ ان شعراء نے فر سودگیوں کے جا لے اتار کر حبّ الوطنی کے چراغ جلا ئے۔ اس دور میں تحریکِ آ زادی انگریزوں کے طوقِ غلامی اتار پھینکنے کے مرحلے تک نہیں پہنچی تھی۔ محمد حسین آزاد جن کے والد محمّد باقر کو غدر کے بعد پھانسی دے دی گئی تھی،غدر کی ناکامی کو نا اتفاقی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور اپنی نظم’’حبِّ وطن ‘‘میں اتّحاد پیدا کرنے کی تلقین کر تے ہیں:
کچھ ہوگیا زمانے کا الٹا چلن یہاں
حبّ الوطن کے بدلے ہے بغض الوطن یہاں
بن تیرے ملک ہند کے گھر بے چراغ ہیں
جلتے عوض چراغوں کے سینے کے داغ ہیں
الطاف حسین حالی ؔ نے آ زادی کی قدر،انگلستان کی آ زادی اور ہندوستان کی غلامی نیز سیاست وغیرہ نظموں میں غلامانہ ذہنیت کو ہدفِ ملامت بنایا اسمٰعیل میرٹھی بہتر زمانے کی بشارت کے ساتھ آ زادی کی قدر و قیمت ان الفاظ میں سمجھاتے رہے:
ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر
ہے وہ خوف و ذلّت کے حلوے سے بہتر
اقبال کی شاعری میں فرنگی چالوں کا پر دہ فاش کر نے کو شش کے ساتھ ہی علیگڑھ کے طلبا کے نام خطاب میں یہ اشارہ بھی ملتا ہے۔وہیں قومی اتّحاد پر بھی زور دیا گیا ہے:
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
اقبال نے نہ صرف وطن کی محبّت کے گیت گائے بلکہ اپنی تہذیبی جڑوں کی شناخت پر بھی زور دیا۔اسی کے ساتھ عصرِ حاضر کی فتنہ سامانیوں سے بھی قوم کو خبر دار کیا۔اقبال کی شاعری میں حریت کا تصّور اپنی فلسفیانہ بنیادوں پر استوار ہو کر واضح سمت کی نشاندہی کر نے لگا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب دوسری جنگِ عظیم تحریکِ خلافت اور قومی تحریکوں نے جرأتِ گفتار عطا کی، اردو شاعری اشارے کنائے ایک طرف رکھ کر کھلے بندوںانقلاب کی زبان میں بات کرنے لگی۔ چکبستؔ وطن پر مر مٹنے کے جذبے سے سر شار نغموں کے ساتھ سوراج کا مطالبہ ان الفاظ میں دہرانے لگے :
طلب فضول ہے کانٹوں کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے
بیسویں صدی کے اوائل سے حصولِ آ زادی تک اردو شاعری میںآزادی ایک اہم موضوعِ سخن رہا ہے۔ ضبط شدہ نظموں میں شامل تخلیقات اس حقیقت کی طرف اشارہ کر تی ہیں کہ اُس زمانے میں اردو کی بیشتر نظمیں آزادیِ وطن کی محبّت میں سر شار ہو کر لکھی گئی ہیں۔ ان تمام کا احاطہ یہاں ممکن نہیں۔حسرت موہانی ، جگر مراد آ بادی ،افسر میرٹھی ،اختر شیرانی ،احسان دانش ،جمیل مظہری ،معین احسن،علی جواد زیدی ،اور شمیم کر ہانی وغیرہ نے بھی اس مو ضوع پر معیاری تخلیقات سپردِ قلم کیں۔
ان شعراء میں ظفر علی خاں شاعری کے علاوہ صحافت کے ذریعے بھی حکومتِ انگلستان سے برسرِپیکار رہے۔جوش ملیح آ بادی نے اُن رجعت پرست اداروں کو خوب پھٹکارا جو تحریکِ آزادی کی جڑیں کھوکھلی کر رہے تھے۔جوش کے لہجے کی گھن گرج ان اشعار میں ملاحظہ فرمائیے:
اٹھو وہ صبح کا غرفہ کھلا زنجیرِ شب ٹوٹی
وہ دیکھو پو پھٹی، غنچے کھلے، پہلی کرن پھوٹی
اٹھو، چونکو، بڑھو، منہ ہاتھ دھو ڈالو
ہوائے انقلاب آنے کو ہے ہندوستاں والو
(آثارِ انقلاب)
اسی دوران ترقّی پسند تحریک اور اشتراکیت کے زیرِ اثر شعراء کا ایک طبقہ منظرِ عام پر آ یا جنھوں نے انگریزوں کی سامراجی طاقت کو ادب کے پلیٹ فارم سے للکارا ان شعرا ء میں مجازؔ،فیضؔ،مخدومؔ،جان نثار اختر،سلام مچھلی شہر ی، ساغر نظامی اور ساحر لدھیانوی قابلِ ذکر ہیں۔ فیض ؔنے مجازکے متعلق آ ہنگ کے دیباچہ میں لکھا ہے :
’’مجازؔ انقلاب کا ڈھنڈورچی نہیں انقلاب کا مطرب ہے۔اس کے نغموں میں بر سات کے دن کی سی سکون بخش خنکی ہے اور بہار کی رات کی سی گرم جوشی و تاثیر آ فرینی ہے۔‘‘
ہندوستان پر انگریزوں کی ڈھیلی ہو تی ہو ئی گرفت اور ایک نئے عہد کے آ غاز کی بشارت مجازؔکی نظموں میں صاف طور پر سنائی دیتی ہے:
مسافر بھاگ وقتِ بے کسی ہے
ترے سر پر اجل منڈلا رہی ہے
نہ دے ظالم فریبِ چارہ سازی
یہ بستی تجھ سے اب تنگ آچکی ہے
مرتّب اک نیا دستور ہوگا
بِنا اک دورِ نو کی پڑ رہی ہے
مجازؔکے یہاں یہ انقلاب ایک آ فاقی تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے:
آؤ مل کر انقلابِ تازہ اک پیدا کریں
دہر پر اس طرح چھا جائیں کہ سب دیکھا کریں
اس انقلاب کی آ فاقیت، ترقّی پسند تحریک سے وابستہ دیگر شعرا کے یہاں بھی نمایاں ہے۔ اس ضمن میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ترقّی پسند تحریک بنیادی طور پر دیسی تحریک نہ تھی ، اس کا سر چشمہ اشتراکیت اور انقلابِ روس اور ہدف سامراج تھا۔ برصغیر میں اس تحریک کو جڑ پکڑنے کے لئے بہر حال ایک محاذ کی ضرورت تھی جو اسے سامراجی طاقت، حکومتِ انگلستان کے روپ میں دستیاب ہو گیا۔ابتدا میں اس تحریک کی ساری توانائی اسی طاقت کے خلاف ابھر کر آ ئی اورایک اعلیٰ مقصد کے حصول کی خاطر صرف ہو ئی۔ ترقّی پسند تحریک کے تحت ابھرنے والے ہمارے شعراء کے ہاں آ زادی اور انقلاب ہمیشہ ہی اہم موضوعات رہے ہیں۔
غرض بیسویں صدی کے اوائل میں اردو ادب میں ابھر نے والی تحریکات نے آ زادی کو مختلف زاویوں سے روشن کیا ،نہ صرف، تحریکِ آ زادی کو نیا خون دیا بلکہ اس خون کو روانی بھی عطا کی۔
محمد اسد اللہ ،ناگپور
۳۰ ۔ گلستان کالونی ، نزد پانڈے امرائی لانس ،ناگپور ۴۴۰۰۱۳
موبائیل: 9579591149