نئی دہلی :سپریم کورٹ نے عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق جواشاریئےدئے ہیں، ان پر عمل کرنا اور کروانا،روز فتنے نہ پیدا ہوں،اس پر قدغن لگانے کے لئے سخت موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کااظہار شاہی امام مولانا سیداحمد بخاری جامع مسجد دہلی نے کل نماز جمعہ سے قبل اپنےخطاب میں کیا ۔کل یہاں جاری ایک پریس ریلیز میں انھوں نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں اکتوبر1991میں بنے پارلیمانی ایکٹ عبادت گاہوں کے تحفظ کا خصوصی قانون پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے واضح تنبیہ کی تھی کہ اس ایکٹ کی رو سے مستقبل میں اس طرح کے مزید فتنوں کو ہوا نہ دی جائے، یہ اب سلسلہ ختم ہوجاناچاہئے لیکن ساتھ میں فیصلے میں کچھ ایسی گنجائش چھوڑدی گئی، جس کاغلط استعمال (مس یوز)اب روز کا وطیرہ بن گیاہے۔ جامع مسجد بدایوں کرناٹک ،مدھیہ پردیش ،اور دیگر ریاستوں میں اس طرح کے دعوے اور سروے کی باتیں نہ ختم ہونے والا یہ سلسلہ شاہی جامع مسجد سنبھل اور 800سال پرانی درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی غریب نواز ؒ تک پہنچ چکاہے۔آخر ہم اس طرح کے معاملات کو کہاں تک لے جاناچاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2019 میں بابری مسجد کے حوالے سے تمام زمینی حقائق مسجد کے حق میں ان کی نشاندہی کرتے ہوئے فیصلہ مندر کے حق میں دیا ،ہم روز اول سے عدالتوں کے فیصلے کو ماننے کی اور اپنے آپ کو اس کاپابند رکھنے کی کئی دہائیوں سے برابربات کرتے رہے ہیں۔عدالت کے فیصلے حقائق پر ہوتے ہیں جذبات پر نہیں۔انھوں نے دعوی کیا کہ ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں یہ واحد فیصلہ جو اکثریت کے مذہبی جذبات کی بنیادپرحقائق سے روگرادانی کرتے ہوئے اس کے حق میں دیاگیامسلمانوں نے اپنا وعدہ نبھایا،عہد کی پابندی کی اور چوں تک نہیں کی۔
احمد بخاری نے دعوی کیا کہ اب یہ سلسلہ سروے سے بڑھ کردنگوں، ہلاکتوں،یک طرفہ زیاتیوں،قیدوبند کی صعوبتوں، اور نفسیاتی محرومیوں کی حدوں کو پارکرتا جارہا ہے۔سنبھل میں ایک ضلع مجسٹریٹ آنافانا میں سروے آرڈر دیتاہے، دو گھنٹے میں اس پر عمل شروع ہوجاتاہے سروے ٹیم تشکیل دی جاتی ہے اور اسی دن سروے بھی کرلیاجاتاہے۔مسجد کمیٹی جو براہ راست فریق ہے جس کے صدرخود وکیل بھی ہیں ان کو بھی سنا نہیں جاتا،ایسی جلد بازی کیوں؟ کیا کسی نئے فتنے کو جگانے کیلئے ایساکیاگیا؟یہ اپنے آپ میں ایک سوال ہے جب کہ پرامن طریقے سے پہلا سروے کرایاگیا ،کمیٹی کے لوگ سنبھل لوک سبھاکے رکن ضیاءالرحمن برق وہاں موجود رہے اور خوش اسلوبی سے یہ کام انجام پاگیا۔
مولانا بخاری نے کہا کہ ایک مرتبہ سروے کرنے میں فیصلے کی گنجائش تھی لیکن پھر دو دن بعددوبارہ سروے بغیر عدالت کی اجازت کے کیاگیا ،صبح نماز فجر کے وقت سروے ٹیم وہاں پہنچتی ہے، اگر ٹیم میں صرف سروے سے متعلق اراکین ہوتے ،تب بھی صبر آجاتا۔لیکن ان کے ساتھ غیر متعلق لوگوں کا نعرے لگاتے ہوئے مسجد میں داخل ہونااس بات کا ثبوت ہے کہ نیت سروے کی کم دنگے کی زیادہ تھی،عوام کااس حرکت پر غصہ آنافطری تھا۔ بعد ازاں حالات بگڑتے گئے گولیاں چلیں،ہلاکتیں ہوئیں، 5 نوجوان بچے لقمہ ءاجل بن گئے ،متعدد لوگ زخمی ہوئے،متعدد گرفتاریاں ہوئیں،سیکڑوں لوگوں کے خلاف مقدمات قائم ہوئے۔شہر میں خوف وہراس کاماحول ہے ۔
انھوں نے کہا کہ زندگی میں کئی بار ایسے لمحات آتے ہیں جب انسان خود کوبے بس اور لاچار محسوس کرتاہے۔ آج یہی حال دنیا میں مسلمانوں کا ہے جہاں وہ سخت آزمائشوں اور امتحانی کیفیت سے گزررہاہے۔ غزہ، لبنان، سیریا، سوڈان،یمن اورعراق کے بے بس عوام دنیائے انسانیت کو پکارہے ہیں لیکن حیوانیت کایہ ننگا ناچ آج بھی برابر جاری ہے۔غزہ میں ہزاروں شہید،ہزاروں زخمی،لاکھوں بے گھراس تباہی اوربربادی کے بعد بھی مسلم ممالک بیدارنہ ہوسکیں تواس کو کیاکہاجاسکتا ہے؟ فلسطین کے نوجوانوں، بزرگوں، عورتوں اور بچوں نے جس صبرکا مظاہرہ کیاہے، ان کی اس ہمت کو سلام ہے۔
انھوں نے کہا کہ آج وطن عزیز کے جو حالات ہیں اور جس سے آپ اور ہم گزررہے ہیں اب سب کو مل کر یہ طے کرناہوگا کہ ہمارے ملک کوکس طرف جاناہے ،جو ہم نے آئین میں طے کیاہے جس پر آج بھی سب کا اتفاق ہے ۔ آج قیادت وزیراعظم کے پاس ہے اور یہ تمام باتیں ان سے سیدھی جڑتی ہیں۔ اُس سے یہ یقین پیداہوتاہے اور ہونابھی چاہئے کہ ملک میں قانون کی بالادستی ہے برابری اور مساوات ہے اور عدل وانصاف کا دوردورہ ہے۔لیکن ہندوستان کی اقلیتوں میں بالعموم اورمسلمانان ہند میں بالخصوص سابقہ چند برسوں میں احساس محرومی پیداہوئی ہے۔ماضی میں اخلاق اور پہلوخاں کا واقعہ یک طرفہ بلڈوزر ، مساجد،مدارس اور مزارات کی متعدد انہدامی کارروائیاں، ہجومی تشدد کے مجرمین کے گلوں میں پھول پہناکر استقبالیہ دیاجانا۔
انھوں نے کہا کہ مسلمان اگر ذرا احتجاج بھی کرے اور اس میں کچھ نقصان ہوجائے تو اس کی بھرپائی اسی سے کیاجاناان کوجیلوں میں ڈالنا،ناجائز مقدمات دائر کرنا، توہین رسالت،قرآنی آیات کی بے حرمتی،اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے نہایت گھٹیا زبان کا استعمال یہ سب تو وزیراعظم آپ کے منصب سے میل نہیں کھاتے۔انھوں نے سوال کیا کہ مسلمانانِ ہند اس ملک کے برابرکے شہری نہیں ہیں؟ہریانہ میں کئی سال پہلے فسادہوا، جس میں ہزاروں کروڑوں روپے کی سرکاری املاک کانقصان ہوا،ان فسادیوں سے تو کوئی بھرپائی نہیں کی گئی پھر ہمارے ساتھ ایساکیوں؟ ہمارے خلاف سرکاری کارروائی میں اتنی تیز ی کہ نوٹس نہ دیاجائے یا اتنا کم وقت دیاجائے کہ سامان بھی نہ اٹھاسکیں،مکان بھی ہمارے گرائے جائیں،مسجدیں بھی ہماری شہید کی جائیں،مزارات بھی ہمارے منہدم کئے جائیں اور مقدمے بھی ہم پر قائم کئے جائیں ایسے میں مسلمانوں میں احساس محرومی پیدا نہ ہوتوپھر کیاہو؟
انھوں نے آخر میں کہا کہ ان کا یہ سوال ہے کہ وزیراعظم صاحب یہ جو کچھ ہورہاہے اور جو اس کے کرنے والے ہیں، وہ آپ کے دوست کیسے ہوسکتے ہیں؟یہ اپنے آپ میں ایک سوال ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں عبادت گاہوں کے تحفظ کے حوالے سے جواشاریئے دیئے گئے، ان پر عمل کرنا اور کروانا،روز یہ فتنے نہ پیدا ہوں،اس پر روک لگانااب آپ کو اس حوالے سے ایک سخت موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اُس روشنی میں جس کاذکر آپ یوم آئین پر کرتے چلے آرہے ہیں۔