برصغیر کی تحریکِ آزادی میں کئی ایسے گمنام ہیرو گزرے ہیں جنہوں نے بے مثال قربانیاں دیں مگر تاریخ کے صفحات میں ان کے نام دب کر رہ گئے۔ شوکت عثمانی انہی میں سے ایک تھے۔ وہ نہ صرف ایک مجاہدِ آزادی تھے بلکہ ادیب، صحافی، مفکر اور کمیونسٹ نظریات کے حامی رہنما بھی تھے۔ ان کی زندگی قربانی، جدوجہد اور نظریاتی پختگی کا حسین امتزاج تھی۔
شوکت عثمانی کا اصل نام مولا بخش استا تھا۔ وہ 1901ء میں بیکانیر، راجستھان میں پیدا ہوئے۔ ان کے دل میں آزادی کا جذبہ بچپن ہی میں پروان چڑھا۔ تحریکِ خلافت کے دوران محض 18 سال کی عمر میں وطن چھوڑا اور روس جا پہنچے، جہاں اسٹالن سے ہندوستان کی آزادی کے لیے مدد کی درخواست کی۔ یہیں ان کا رجحان کمیونزم کی طرف ہوا۔
ہندوستان واپسی کے بعد انہوں نے محنت کش طبقے کو منظم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ان کی انقلابی سرگرمیوں کے باعث وہ 16 سال سے زائد قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے رہے۔ ’کانپور کیس‘، ’میرٹھ سازش کیس‘ اور ’ایکٹ آف ڈیفنس‘ جیسے مشہور مقدمات میں گرفتار ہوئے۔ آزادی کے بعد بھی انہوں نے صحافت اور مزدور تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا، مگر بدقسمتی سے انہیں وہ مقام نہ ملا جس کے وہ حقدار تھے۔
اپنے وطن میں بے قدری سے دلبرداشتہ ہو کر وہ دوبارہ ملک سے چلے گئے۔ 1978ء میں ان کا انتقال ہوا اور آج ان کا نام تاریخ میں کہیں کھو چکا ہے۔ یہ ایک قومی المیہ ہے کہ جنہوں نے آزادی کے لیے سب کچھ قربان کیا، ان کا ذکر نہ تعلیمی نصاب میں ہے، نہ قومی شعور میں۔
read more……qaumiawaz.com







