پوری دنیا میں کہرام مچا چکے کووڈ-19 وبا کے بعد اب ایچ ایم پی وی نام کے وائرس نے چین میں دہشت پھیلا رکھی ہے۔ اس تعلق سے ہندوستان کے لیے بُری خبر سامنے آئی ہے۔ دراصل اس وائرس کا پہلا معاملہ بنگلورو میں رپورٹ ہوا ہے۔ بنگلورو کے ایک اسپتال میں 8 مہینے کی بچی میں ایچ ایم پی وی وائرس کا پتہ چلا ہے۔ محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ ہم نے ہماری لیب میں اس کا ٹیسٹ نہیں کیا ہے۔ ایک پرائیویٹ اسپتال میں اس کے معاملے کی رپورٹ آئی ہے۔ پرائیویٹ اسپتال کی اس رپورٹ پر شبہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔
انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق بنگلورو کے ایک اسپتال میں 8 مہینے کی بچی میں ایچ ایم پی وی وائرس پایا گیا ہے۔ بچی کو بخار کی وجہ سے اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ حکومت ہند اس معاملے کو لے کر سنجیدہ ہے اور ایڈوائزری بھی جاری کی جا چکی ہے۔
ایچ ایم پی وی عام طور پر بچوں میں ہی ڈٹیکٹ ہوتا ہے۔ سبھی فلو سیمپل میں سے 0٫7 فیصد ایچ ایم پی وی کے ہوتے ہیں۔ اس وائرس کا اسٹرین نیا ہے۔ اس کا ابھی پتہ نہیں چل پایا ہے۔ اس وائرس کو ہیومن میٹانیومو وائرس یا ایچ ایم پی وی وائرس کہتے ہیں۔ اس کی علامت کافی حد تک عام سردی زکام کے یکساں ہوتی ہے۔ عام معاملوں میں یہ کھانسی یا گلے میں گھڑگھڑاہٹ، ناک بہنے یا گلے میں خراش کی وجہ بنتا ہے۔ چھوٹے بچوں اور بزرگوں میں ایچ ایم پی وی کا انفکشن سنگین ہو سکتا ہے۔ کمزور امیون سسٹم والے لوگوں میں یہ وائرس سنگین بیماری کی وجہ بن سکتا ہے۔
یو ایس سینٹر فار ڈِزیز کنٹرول اینڈ پرینویشن (سی ڈی سی) کے مطابق ایچ ایم پی وی کو نیا وائرس نہیں ہے، اس کا سب سے پہلے 2001 میں پتہ چلا تھا۔ ایک ماہر کا کہنا ہے کہ کچھ سیرولاجیکل شواہد سے پتہ چلا ہے کہ یہ وائرس 1958 سے ہے۔ واضح ہو کہ موجودہ وقت میں ہیومن میٹانیومو وائرس سے بچاؤ کے لیے کوئی ٹیکہ (ویکسین) موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اینٹی وائرل دوائیوں کا استعمال اس پر اثر نہیں کرتا۔ ایسے میں اینٹی وائرل کا استعمال انسانوں میں قوت مدافعت بڑھانے کا کام کر سکتا ہے۔ اس وائرس سے متاثر لوگوں کی علامت ہلکا کرنے کے لیے کچھ دوائیں دی جا سکتی ہیں۔ حالانکہ وائرس کو ختم کرنے کے قابل علاج ابھی موجود نہیں ہے۔