اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے خطاب نے ایک غیر معمولی منظر پیدا کر دیا۔ جمعہ کے روز جیسے ہی نیتن یاہو اسٹیج پر آئے، متعدد عرب، مسلم، افریقی اور یورپی ممالک کے نمائندے اجتماعی طور پر ہال سے واک آؤٹ کر گئے، جس کے بعد ہال تقریباً خالی رہ گیا۔ اس موقع پر امریکی وفد اپنی نشستوں پر موجود رہا اور کچھ نمائندوں نے تالیاں بجا کر نیتن یاہو کا خیر مقدم کیا۔ تاہم، مجموعی طور پر ہال میں شور اور ملے جلے ردعمل کا ماحول رہا۔
نیتن یاہو نے اپنی تقریر میں زور دیا کہ اسرائیل کو غزہ میں حماس کے خلاف کارروائی مکمل کرنا ہوگی۔ انہوں نے ایک نقشہ، کیو آر کوڈ اور ملٹی پل چوائس بورڈ کے ذریعے اپنے مؤقف کو پیش کرنے کی انوکھی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی عوام کو براہِ راست پیغام پہنچانے کے لیے انہوں نے اسرائیلی فوج کو غزہ کے اطراف میں لاؤڈ اسپیکر لگانے اور خفیہ اداروں کو فون کے ذریعے تقریر نشر کرنے کی ہدایت دی ہے۔
تقریر کے دوران انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بار بار تعریف کی اور کہا کہ امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات ناقابلِ تنسیخ ہیں۔ انہوں نے حماس قیادت پر زور دیا کہ وہ ہتھیار ڈالیں، یرغمالیوں کو رہا کریں اور فوری سرنڈر کریں۔
یہ خطاب ایسے وقت میں ہوا جب اسرائیل عالمی دباؤ اور بڑھتی ہوئی سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔ حال ہی میں آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس اور برطانیہ سمیت کئی ممالک فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں، جس سے اسرائیل پر دباؤ مزید بڑھ گیا ہے۔
بین الاقوامی برادری کی جانب سے جنگ بندی اور دو ریاستی حل کے مطالبات کے باوجود نیتن یاہو نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ حماس کو انعام دینے کے مترادف ہوگا۔ ہال کا خالی ہونا واضح کرتا ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک ان کے مؤقف کو قبول نہیں کر رہے اور اسرائیل بڑھتی ہوئی عالمی تنہائی کا سامنا کر رہا ہے۔
read more…….qaumiawaaz.com







