نئی دہلی، 7 دسمبر (اخبار اردو ڈاٹ کام) جماعت اسلامی ہند نے آج اپنے مرکزی دفتر میں پریس کانفرنس کے دوران مذہبی مقامات کے تحفظ کے قانون (1991) کے حوالے سے اپنے موقف کا اعادہ کیا اور کہا کہ تحقیق اور سروے کے نام پر اس قانون سے چھیڑ چھاڑ بند کی جائے۔ جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر، ملک معتصم خان نے کہا کہ اس قانون کا نفاذ فرقہ وارانہ کشیدگی کو روکنے اور تمام مذہبی مقامات کو 15 اگست 1947 کی حیثیت میں برقرار رکھنے کے لئے کیا گیا تھا تاکہ ملک میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ ملے اور عبادت گاہوں سے متعلق تاریخی دعووں سے پیدا ہونے والے تنازعات کو روکا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود کچھ فرقہ پرست عناصر مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے بارے میں جھوٹے دعوے کر کے سماج میں مذہبی تقسیم اور فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے عدالتوں سے درخواست کی کہ ایسی بے بنیاد درخواستوں کو مسترد کیا جائے اور جھوٹے دعوے کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
سنبھل کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے ملک معتصم خان نے کہا کہ پولیس فائرنگ میں کئی معصوم مسلم نوجوانوں کی ہلاکت ایک سنگین واقعہ ہے، جو ریاستی جبر اور مذہبی تفریق کا عکاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی عدالت نے مسجد کمیٹی کے موقف کو سنے بغیر یکطرفہ طور پر مسجد کے سروے کا فیصلہ کیا، جس سے عدلیہ کے وقار پر سوالات اٹھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سروے ٹیم کے ساتھ اشتعال انگیز عناصر کی موجودگی اور ان کی جانب سے فرقہ وارانہ نعروں کے بلند کیے جانے نے کشیدگی کو بڑھایا اور تشدد کو ہوا دی۔ جماعت اسلامی ہند نے اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات اور سماج دشمن عناصر کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا۔
پروفیسر سلیم انجینئر نے صحافیوں اور سماجی کارکنوں کے خلاف بڑھتی ہوئی ہراسانی پر بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ یہ غیر آئینی اور غیر جمہوری عمل ہے۔ انہوں نے خاص طور پر سماجی کارکن ندیم خان اور صحافی محمد زبیر کے خلاف کارروائیوں کی مذمت کی اور کہا کہ ان افراد نے ہمیشہ نفرت انگیز تقاریر اور فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔
انہوں نے حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ عوامی ضروریات اور فلاحی پالیسیوں کو اولین ترجیح دیں اور فرقہ وارانہ کشمکش اور ذات پات کی سیاست سے گریز کریں۔
مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں نئی ریاستی حکومتوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے ملک معتصم خان نے کہا کہ ’’ہم امید کرتے ہیں کہ دونوں ریاستی حکومتیں عوام کی ضروریات اور امنگوں کو ترجیح دیتے ہوئے ایک جامع اور فلاحی پالیسی اپنائیں گی اور فرقہ وارانہ کشمکش اور ذات پات کی سیاست سے دور رہیں گی۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ مرکزی حکومت دونوں ریاستوں کو بلا تفریق اپنا مکمل تعاون فراہم کرے گی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’جماعت اسلامی کا ماننا ہے کہ حکومت کی تمام کوششیں عوام کو متحد رکھنے، معاشی سست روی، مہنگائی اور بے روزگاری کو دور کرنے، نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور کسانوں کے مسائل حل کرنے پر مرکوز ہونی چاہئیں۔ خواتین کی فلاح و بہبود، ان کی حفاظت اور تحفظ پر بھی خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔‘‘
انہوں نے نئی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اعلیٰ اخلاقی اور دستوری اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے تمام شہریوں کے لیے ایک منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور ہمہ جہت ترقیاتی پروگرام تیار کریں اور اپنی دستوری ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ پریس کانفرنس کی نظامت شعبہ میڈیا کے ذمہ دار محمد سلمان نے کی۔