لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ ایک بار پھر زور پکڑ رہا ہے۔ ماہر ماحولیات اور سماجی کارکن سونم وانگ چک پچھلے پندرہ دنوں سے بھوک ہڑتال پر ہیں تاکہ اس مطالبے کو تقویت ملے اور حکومت کو وعدے یاد دلائے جائیں۔ بدھ کے روز اس تحریک نے تشدد کی شکل اختیار کر لی جب لیہ میں طلبہ اور شہری بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے۔ احتجاج کے دوران پولیس نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی تو طلبہ مشتعل ہو گئے اور ان کی فورسز سے جھڑپیں ہوئیں۔ اس دوران پتھراؤ کیا گیا، ایک سی آر پی ایف کی گاڑی کو آگ لگا دی گئی اور بی جے پی کا مقامی دفتر بھی نذر آتش کر دیا گیا۔ کئی گاڑیوں اور عوامی املاک کو نقصان پہنچا جبکہ پولیس نے مظاہرین کو قابو میں کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔
یہ احتجاج دراصل اس وعدے کی یاد دہانی ہے جو پانچ اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے خاتمے کے وقت کیا گیا تھا۔ اس وقت لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کر کے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا گیا تھا۔ حکومت نے کہا تھا کہ حالات معمول پر آنے کے بعد مکمل ریاستی درجہ دیا جائے گا، مگر اب تک ایسا نہیں ہوا۔ اسی پس منظر میں وانگ چک کی قیادت میں لداخ کی اپیکس باڈی نے چار اہم مطالبات پیش کیے ہیں۔ پہلا مطالبہ لداخ کو ریاستی درجہ دینا ہے، دوسرا آئین کے چھٹے شیڈول میں شامل کرنا تاکہ مقامی لوگوں کو خصوصی حقوق مل سکیں، تیسرا دو لوک سبھا نشستیں دینے کا ہے اور چوتھا لداخ کی قبائل کو آئینی طور پر مقامی یا آدیواسی کا درجہ دینا ہے۔
لیہ میں احتجاجی مظاہروں کے باعث حالات کشیدہ رہے اور شہر بند رہا۔ اگرچہ اب صورتحال کچھ حد تک قابو میں ہے، لیکن عوامی غصہ اور سیاسی دباؤ حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
read more….qaumiawaz.com







