نئی دہلی:قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے کہا کہ یہ ڈیجیٹل دور ہے۔ سائنسی و تکنیکی ترقیات کے اس عہد میں ترجیحات تیزی سے بدل رہی ہیں۔ یہ بات انہوں نے قومی اردو کونسل کے زیراہتمام ہندوستانی زبانوں کا مرکز جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اشتراک سے منعقدہ سہ روزہ قومی سمینارکے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ تقاضے تبدیل ہورہے ہیں، بزم جہاں کا انداز بدل رہا ہے، اس لیے ہمیں بھی اپنا انداز فکر اور طرزِ احساس بدلنا ہوگا۔ زبان و ادب کو بہت سے کلیشوں سے آزاد کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید یہ کہا کہ اس سہ روزہ سمینار نے میرے ذہن میں سوالات کے کچھ نئے سلسلوں کو بھی جنم دیا کہ کیا ہمارا ادب ایک ہی سوئی کی نوک پر ٹھہرا ہوا ہے، کیا چند ہی نکات و نظریات میں ہمارا ادب محصور ہے؟ کیا ہمارا ادب حا ل اور مستقبل سے ہمیں جوڑنے میں ناکام ہے؟ ادب کے تعلق سے بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات اب ہمیں تلاش کرنے ہوں گے۔ ہمیں اپنے ادب کو ملک و معاشرے سے جوڑ کر دیکھنا ہوگا اور ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ وزیراعظم نریندر مودی کے وکست بھارت @2047 کے وژن اور مشن میں ہمیں کس طرح کنٹری بیوٹ کرنا ہے۔
اس موقعے پر پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے کہا کہ یہ سمینار ادب کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ایک کوشش ہے۔ انہوں نے اس موقعے پر ایک قرار داد پیش کی جس میں ملک کے مختلف حصوں میں کونسل کی جانب سے ثقافتی تقریبات کا انعقاد اور تمام ریاستوں کے ادیبوں کی نمائندگی پر بھی زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ کونسل کو ایک ایسا پورٹل تیار کرنا چاہیے جس میں ہندوستانی جامعات کے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات کی فہرست ہو۔ ادب اطفال پر خصوصی توجہ دینے پر بھی زور دیا۔ اس اہم سمینار میں تعاون کے لیے حکومت ہند کا بھی شکریہ ادا کیا۔اس کے علاوہ پروفیسر احمد محفوظ، پروفیسر ابوبکرعباد کے ساتھ پروفیسر غضنفر، پروفیسر محمد علی جوہر، پروفیسر شہاب عنایت ملک، ڈاکٹر نصیب علی اور ڈاکٹر انوپما پول نے اپنے تاثرات پیش کیے اور سمینار کو ہر زاویے سے کامیاب قرار دیا۔ اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر شفیع ایوب نے بحسن و خوبی انجام دیے۔
اختتامی سیشن سے قبل دو سیشن ہوئے۔ پانچویں تکنیکی اجلاس کی صدارت پروفیسر اسلم جمشیدپوری اور ڈاکٹر خاور نقیب نے کی۔ اس نشست میں ڈاکٹر ارشاد نیازی، ڈاکٹر نورالحق اور ڈاکٹر ایس محمد یاسر نے مقالات پیش کیے۔ ڈاکٹر خاور نقیب نے صدارتی کلمات میں کہا کہ دیگر زبانوں میں جو ادب ہے اس کا ہم تقابلی مطالعہ کریں تاکہ بین لسانی اور بین ثقافتی چیزیں سامنے آئیں۔ تقابلی مطالعے کے فوائد اور اہمیت پر توجہ دینے کی مزید ضرورت ہے۔ پروفیسر اسلم جمشیدپوری نے کہا کہ نئی صدی میں جو تبدیلیاں آئی ہیں اس کو نشان زد کرنا اس سمینار کا مقصد ہے۔ مصنوعی ذہانت اور تکنیکی وسائل کو سمجھ کر ہی ادب کو آگے لے جایا جاسکتا ہے۔ اس نشست کی نظامت جے این یو کے ریسرچ اسکالر نوید رضا نے کی۔
چھٹے اجلاس کی صدارت پروفیسر شمس الہدیٰ دریابادی اور محترمہ یاشکا ساگرنے کی جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر عبدالباری نے انجام دیے۔ اس نشست میں ڈاکٹر پرویز احمد، ڈاکٹر سیدہ بانو، ڈاکٹر خان محمد آصف اور ڈاکٹرشبنم شمشاد نے مقالات پیش کیے۔ صدارتی تقریر کرتے ہوئے پروفیسر شمس الہدیٰ دریابادی نے تمام مقالات پر تفصیلی گفتگو کی ، خاص طور پر مصنوعی ذہانت کے حوالے سے انھوں نے پرمغز گفتگو کی اور اہم اشارات کیے۔ سہ روزہ قومی سمینار کے تیسرے دن دلی کی تینوں یونیورسٹیوں کے طلبا اور طالبات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ ان کے علاوہ دیگر معززین ادب بھی اس میں موجود رہے۔