میں نے حال کے ہفتوں میں جو سب سے زیادہ جھنجھوڑنے والے چند کارٹون دیکھے ہیں، ان میں سے ایک لندن کی گمنام اشاعت میں شائع ہوا تھا۔ اس میں ایک ٹھیلا دکھایا گیا ہے جس میں اقوام متحدہ کے مشہور نیویارک ہیڈکوارٹر کا ٹوٹا پھوٹا نمونہ رکھا ہوا تھا اور وہ ٹھیلا کھڑی پہاڑی سے نیچے کی طرف تیزی سے لڑھکتا جا رہا تھا، جبکہ اس کے پاس ہی ہوڈی پہنے ایک شخص اسے دیکھتے ہوئے بدبدا رہا تھا: ’…اور ختم ہو گئی عالمی معیشت!‘
ایسے وقت میں جب مایوسی کے کہرے میں لپٹے مستقبل کی طرف بڑھتے ہوئے ہم اس سال کو الوداع کر رہے ہیں، اس کارٹون نے دنیا کے موجودہ حالات کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ غزہ اور یوکرین کے ’موت والے علاقے‘ تاریک عالمی منظرنامہ کی پہچان بن گئے ہیں، لیکن دنیا کے تقریباً ہر حصے میں کئی آتش فشاں جیسی جنگ کے مراکز ابھر آئے ہیں جہاں کبھی بھی آتش فشاں پھٹ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ سے لے کر ایشیا تک، افریقہ سے لے کر لاطینی امریکہ تک دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا علاقہ ہو جسے پوری طرح جنگ سے پاک کہا جا سکے۔ ایسے حالات میں بین الاقوامی طبقہ (اقوام متحدہ اور اس کے 193 رکن ممالک) بے حس تماشائی بن کر تماشہ دیکھ رہا ہے۔