مصنوعی ذہانت (اے آئی) آج دنیا میں سب سے زیادہ زیر بحث موضوع بن چکی ہے۔ کوئی اسے انسانی ترقی کی معراج قرار دیتا ہے تو کوئی اس کے ممکنہ خطرات سے خوفزدہ ہے۔ سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ یہ ٹیکنالوجی مستقبل میں کتنی نوکریاں ختم کرے گی اور انسان کا کردار کہاں باقی رہے گا۔ اس سوال کا درست جواب فی الحال ممکن نہیں، لیکن یہ حقیقت مسلم ہے کہ اے آئی تیزی سے زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہو رہی ہے اور انسانی کردار بدل رہی ہے۔
اسی پس منظر میں البانیہ نے ایک غیر معمولی قدم اٹھایا اور دنیا کی پہلی مصنوعی ذہانت پر مبنی وزیر “ڈیئلا” کو تقرری دے دی۔ یہ صرف تکنیکی پیش رفت نہیں بلکہ سیاسی اور سماجی سطح پر انقلاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ ڈیئلا نے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ وہ کسی کی جگہ لینے نہیں آئی بلکہ انسانوں کی مدد کے لیے ہے۔ یہ بیان حوصلہ افزا ضرور ہے لیکن اس کے ساتھ کئی خدشات بھی جنم لیتے ہیں کہ کیا مستقبل میں پارلیمان، عدلیہ اور انتظامیہ بھی روبوٹس کے سپرد ہو جائیں گے؟
آج کے روبوٹس جذبات سے عاری ہیں اور صرف وہی کرتے ہیں جو ان میں فیڈ کیا جاتا ہے۔ اس کے فائدے بھی ہیں جیسے بدعنوانی کا خاتمہ، سرکاری دفتروں میں تاخیر کا خاتمہ اور عدالتی فیصلوں میں تیزی۔ مگر سوال یہ ہے کہ کب تک اور کس قیمت پر؟ اگر انسان کا کردار محدود ہوتا گیا تو سب سے بڑا نقصان بھی اسی کو ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ ترقی اچھی چیز ہے لیکن اگر وہ انسان کو غیر ضروری بنا دے تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ مستقبل میں ہمیں ایسا توازن قائم رکھنا ہوگا کہ ٹیکنالوجی ترقی کرے لیکن انسان اپنی حیثیت، جذبات اور اخلاقیات کے ساتھ باقی رہے۔ بصورت دیگر ہم ایک ایسی دنیا چھوڑ جائیں گے جو ترقی یافتہ تو ہوگی مگر انسانیت سے خالی۔
read more….qaumiawaz.com







