یوپی کے سنبھل میں تاریخی جامع مسجد کے ہریہر مندر ہونے کا دعویٰ کیے جانے کے بعد آج یہاں دوبارہ قریب دو گھنٹے تک سروے کیا گیا۔ صبح میں سروے ٹیم جامع مسجد کے پاس پہنچی۔ سروے کے بارے میں پتہ چلتے ہی مسجد کے پیچھے لوگوں کی بڑی بھیڑ جمع ہو گئی۔ اس دوران سروے سے ناراض لوگوں نے ہنگامہ کرنا شروع کر دیا۔
بتایا جاتا ہے کہ موقع پر موجود کثیر تعداد میں پولیس دستہ نے بھیڑ کو قابو میں کرنے کے لیے طاقت کا بھی استعمال کیا۔ اس دوران پولیس کے ذریعہ آنسو گیس کے گولے بھی داغے گئے۔ کافی مشقت کے بعد حالات پر قابو پایا گیا جبکہ ہنگامہ کرنے کے الزام میں کئی لوگوں کو پولیس حراست میں لے لیا گیا ہے۔
‘لائیو ہندوستان’ کی خبر کے مطابق مسجد کی چاروں طرف بیریئر لگا کر پولیس نے پورے علاقے کو سیل کر دیا ہے۔ مسجد کے پیچھے ابھی بھی کثیر تعداد میں بھیڑ جمع ہے۔ موقع پر ڈی ایم ڈاکٹر راجندر پینسیا، ایس پی کرشن کمار وشنوئی اور اے ڈی ایم سمیت ضلع کے سبھی بڑے افسر موجود ہیں۔ انڈر کورٹ کمشنر رمیش رادھو کی قیادت میں صبح ساڑھے سات بجے قریب دو گھنٹے تک سروے کا کام چلا۔ سروے کے بعد ٹیم یہاں سے نکل گئی ہے۔ وہیں جامع مسجد کی سیکوریٹی بڑھا دی گئی ہے۔
حالات کو دیکھتے ہوئے ہفتہ کو ہی مسجد احاطہ کے دونوں طرف چار چار سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے تھے۔ کوتوالی انچارج انوج تومر نے بتایا کہ تحفظاتی نظام مضبوط کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ سبھی کیمروں کی ریکارڈنگ کوتوالی میں واقع ڈی وی آر سے جڑی ہوئی ہے۔ وہاں سے ان کیمروں کی 24 گھنٹوں مانیٹرنگ کی جائے گی۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لیے پولیس پوری طرح سے مستعد ہے۔قابل ذکر ہے کہ 19 نومبر کو مسجد کا سروے کیا گیا تھا۔ سنبھل جامع مسجد-مندر تنازع معاملے کی سماعت 29 نومبر کو ہونی ہے جس میں ابتدائی سروے کی رپورٹ پیش کی جائے گی۔