اتوار کو اتر پردیش کے سنبھل میں زبردست تشدد ہوا۔ جامع مسجد کے سروے کی مخالفت کرنے والے مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم میں 4 افراد جاں بحق، 20 سیکیورٹی اہلکار اور 4 انتظامیہ کے اہلکار اور متعدد زخمی ہوگئے۔ اس دوران پتھر اور اینٹیں پھینکی گئیں، مظاہرین نے گاڑیوں کو آگ لگا دی اور پولیس پر پتھراؤ کیا، جس کے بعد پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا۔
نیوز پورٹل ’آج تک‘ ہر شائع خبر کے مطابق مرادآباد کے ڈویژنل کمشنر انجنیا کمار سنگھ نے بتایا کہ شرپسندوں نے فائرنگ کی، ایس پی کے پی آر او کو ٹانگ میں گولی لگی، سی او کو چھرے سے مارا گیا اور تشدد میں 20 سیکورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ایک کانسٹیبل کے سر پر بھی شدید چوٹیں آئی ہیں جبکہ ڈپٹی کلکٹر کی ٹانگ فریکچر ہے۔ سنبھل تحصیل میں 24 گھنٹے کے لیے انٹرنیٹ خدمات بند ہیں، ضلع انتظامیہ نے 25 نومبر کو 12خبر کے مطابق سنبھل تشدد میں چار لوگوں کی موت ہو گئی۔ مرنے والوں کی شناخت نعیم، بلال انصاری، نعمان اور محمد کیف کے نام سے ہوئی ہے۔ نعمان اور بلال انصاری کو رات گیارہ بجے سپرد خاک کر دیا گیا۔ تشدد کے حوالے سے قومی انسانی حقوق کمیشن میں شکایت درج کرائی گئی ہے۔
ایک طرف سنبھل میں یکم دسمبر تک بیرونی لوگوں کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے، وہیں دوسری طرف بھیم آرمی چیف اور نگینہ کے ایم پی چندر شیکھر آزاد نے اعلان کیا ہے کہ وہ پیر یعنی آج سنبھل جائیں گے اور مرنے والوں کے اہل خانہ سے ملاقات کریں گے۔ دوسری جانب سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے ایک پوسٹ میں کہا کہ بھائی چارے کو بگاڑنے والوں کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیے۔ بار ایسوسی ایشن کو بھی اس کے خلاف تادیبی اور تعزیری کارروائی کرنی چاہیے۔ اکھلیش نے کہا کہ اتر پردیش انتظامیہ سے نہ تو کوئی امید تھی اور نہ ہی ہے۔ویں جماعت تک کے تمام طلبہ کے لیے چھٹی کا اعلان کیا ہے۔ ڈی ایم کے حکم پر یکم دسمبر تک باہر کے لوگوں کا داخلہ روک دیا گیا ہے، اس وجہ سے شہر کی سرحد کو سیل کر دیا گیا ہے۔