لاس اینجلس: امریکی شہر لاس میں اینجلس دو دن سے امیگریشن چھاپوں کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔ مظاہرین اور وفاقی ایجنٹوں کے درمیان جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ ہفتہ کو کشیدگی مزید گہری ہو گئی جس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے نیشنل گارڈ کے 2000 فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان کیا ہے۔
لاس اینجلس ریاست کیلیفورنیا کا سب سے بڑا شہر ہے اور پورے ملک کا دوسرا بڑا شہر سمجھا جاتا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے نیویارک شہر کے بعد لاس اینجلس آتا ہے۔ یہ ہالی ووڈ اور امریکی فلمی صنعت کا مرکز بھی ہے۔ اس وقت لاس اینجلس میں مقامی کاروباری اداروں پر امیگریشن کے چھاپے جاری ہیں۔ اس اقدام کی مخالفت بڑھ رہی ہے۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ہفتے کے روز کہا کہ لاس اینجلس میں وفاقی ایجنٹوں اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں مسلسل دوسرے دن بھی جاری رہیں۔ نیشنل گارڈ کے 2000 جوان وہاں تعینات ہوں گے۔
اس اقدام کو ٹرمپ کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف جارحانہ کارروائی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم کیلیفورنیا کے بعض حکام نے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم نے اس تعیناتی کو ‘جان بوجھ کر اشتعال انگیز’ قرار دیا۔ اس پر صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ٹروتھ سوشل’ پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا، ‘اگر کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم اور لاس اینجلس کے میئر کیرن باس اپنا وہ کام نہیں کر سکتے، جو سب جانتے ہیں کہ وہ نہیں کر سکتے، تو وفاقی حکومت مداخلت کرے گی اور فسادیوں اور لٹیروں سے جس طرح سے نمٹا جانا چاہیے’۔
ہفتہ کو لاس اینجلس میں وفاقی ایجنٹوں اور مظاہرین کے درمیان مسلسل دوسرے دن جھڑپیں ہوئیں۔ یہ جھڑپ شہر کے جنوب مشرقی حصے پیراماؤنٹ میں ہوئی، جہاں گیس ماسک پہنے اور ہتھیاروں سے لیس وفاقی ایجنٹوں نے مظاہرین کو ہٹانے کی کوشش کی۔بارڈر پٹرولنگ ایجنٹوں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور فلیش بینگ کا استعمال کیا۔ مظاہرین کا ہجوم بڑھتا رہا۔ کچھ لوگ نعرے لگا رہے تھے اور جھنڈے لہرا رہے تھے۔ یہ لوگ پورے واقعے کو اپنے موبائل میں ریکارڈ کر رہے تھے۔ ہنگامہ آرائی کے باعث سڑک کا ایک حصہ بند کرنا پڑا۔